ur.wikipedia.org

ارتداد - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فتنۂ ارتداد: اسباب و علاج

مقدمہ: اسلام کی تاریخ میں مختلف ادوار میں کئی فتنے رونما ہوئے، جن میں فتنۂ ارتداد ایک اہم اور سنگین فتنہ ہے۔ فتنۂ ارتداد سے مراد وہ صورت حال ہے جب کوئی مسلمان دین اسلام سے منحرف ہو کر دیگر مذاہب یا دہریت کی طرف مائل ہو جائے۔ یہ فتنہ ہمیشہ سے اسلام اور امت مسلمہ کے لیے خطرہ رہا ہے اور اس کے اسباب اور علاج کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس کی روک تھام کی جاسکے۔

فتنۂ ارتداد کے اسباب:

1. عقیدہ کی کمزوری: سب سے بنیادی سبب مسلمانوں کے عقیدے کی کمزوری ہے۔ جب عقائد میں شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں تو لوگ آسانی سے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کا صحیح فہم نہ ہونا اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے ناواقفیت ہے۔


2. دینی تعلیم کا فقدان: ایک اور اہم سبب دینی تعلیمات کا فقدان ہے۔ اگر مسلمانوں کو اسلامی عقائد، فقہ اور سیرت نبوی کی تعلیم نہیں ملتی تو وہ دین سے بے خبر رہتے ہیں اور معاشرتی دباؤ یا تبلیغی مہمات کا شکار ہو سکتے ہیں۔


3. مغربی افکار کا اثر: مغربی ثقافت اور فلسفہ، جو زیادہ تر مادیت پسندی اور مذہبی بے راہ روی پر مبنی ہے، مسلمانوں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور مغربی نظریات کی تشہیر کے نتیجے میں بعض مسلمان اپنے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔


4. اقتصادی و معاشرتی دباؤ: کچھ افراد غربت، بے روزگاری اور معاشرتی مشکلات کے باعث دین کو چھوڑ کر وہ راستے اپناتے ہیں جو انھیں فوری مالی یا سماجی فائدہ دے سکتے ہیں۔ خاص طور پر غیر مسلم تنظیمیں مالی امداد اور دیگر سہولیات کے ذریعے مسلمانوں کو ارتداد کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔


5. نفسیاتی مسائل: نفسیاتی دباؤ، مایوسی اور ذاتی زندگی کے مسائل بھی بعض افراد کو دین سے دور کر دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں انسان عموماً اپنے عقائد پر شک کرنے لگتا ہے اور دوسرے متبادلات کی طرف رجوع کرتا ہے۔

فتنۂ ارتداد کا علاج:

1. عقیدہ کی پختگی: مسلمانوں کو اپنے عقائد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر غور و فکر کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس کے لیے علما کرام کی رہنمائی اور دینی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔


2. دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام: ہر مسلمان کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اسکولوں اور مدارس میں اسلامی تعلیمات کو اہمیت دی جائے اور نوجوانوں کو اسلامی عقائد، اخلاقیات اور تاریخ سے روشناس کرایا جائے۔ والدین کا کردار بھی بہت اہم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ابتدائی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کریں۔


3. مغربی افکار کا جواب: مغربی نظریات اور فلسفہ کو علمی بنیادوں پر رد کیا جائے اور اسلامی عقائد کی مضبوطی پر زور دیا جائے۔ جدید مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں موجود ہے اور اس کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


4. معاشرتی و اقتصادی اصلاحات: اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا حل دین اسلام میں موجود ہے۔ اسلامی معاشی نظام اور عدل و انصاف کے اصولوں کو نافذ کر کے ان مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ حکومتوں اور اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ معاشرتی فلاح و بہبود کے پروگرامز کو فروغ دیں تاکہ لوگ غربت اور مایوسی کا شکار نہ ہوں۔


5. نفسیاتی مدد اور رہنمائی: نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کو دین کے ذریعے سکون اور حل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ علما اور اسلامی کونسلز کو نفسیاتی مشاورت فراہم کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو دین سے جڑے رہنے میں مدد کر سکیں۔

خاتمہ: فتنۂ ارتداد ایک سنگین چیلنج ہے جس کا سامنا امت مسلمہ کو ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس کے اسباب اور علاج کو سمجھنا ہر مسلمان کا فرض ہے تاکہ اس فتنہ کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ ہمیں اپنی دینی تعلیمات کو فروغ دینے اور اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔

حوالہ جات:

1. ابن کثیر، "البدایہ والنہایہ"، دار الحدیث، 1988.


2. امام غزالی، "احیاء علوم الدین"، دار الکتب العربیہ، 1990.


3. مولانا مودودی، "مسئلہ ارتداد"، اسلامک پبلی کیشنز، 1983.